رواں ہفتے، دو انڈین شہریوں نے پاکستان میں پناہ کی غرض سے درخواست دی۔ ان دونوں شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک میں مذہبی تعصب اور جبر کا شکار ہیں اور وہ واپس جانے کی بجائے پاکستان میں مرنا یا جیل میں رہنا پسند کریں گے۔
مذہبی تعصب اور جبر کا شکار
30 سالہ مرد شہری، محمد حسنین، کہتے ہیں کہ وہ ایک سیاسی اور سماجی کارکن ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے مذہبی تعصب اور جبر کا شکار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے ملک میں بہت سے مسلمانوں کو مظالم کا سامنا کرتے دیکھا ہے اور وہ اپنے آپ کو ان سے محفوظ نہیں محسوس کرتے ہیں۔
25 سالہ خاتون شہری، اسحاق امیر، کہتی ہیں کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے اپنے شوہر کے ساتھ مذہبی تعصب اور جبر کا شکار رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو ایک بار مذہبی بنیادوں پر ان کے گھر سے نکال دیا گیا تھا اور وہ اس کے بعد سے گم ہیں۔
پاکستان میں پناہ کی درخواست
حسنین اور امیر نے کراچی میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے پاکستان میں پناہ کی درخواست دی۔ ان کی درخواستوں پر پاکستانی حکومت فیصلہ کرے گی۔
پاکستان میں پناہ کی درخواستیں
پاکستان میں ہر سال ہزاروں غیر ملکی پناہ کی درخواستیں دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر درخواستیں افغانستان، ایران، اور عراق سے آتی ہیں۔ پاکستانی حکومت ان درخواستوں پر فیصلے کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرتی ہے۔
پاکستان میں مذہبی آزادی
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں مذہبی تعصب اور جبر کی شکایات کی جاتی رہتی ہیں۔