احتجاج کی گہما گہمی اپنے عروج پر تھی، برہان انٹرچینج پر ہزاروں پی ٹی آئی کارکنان کا ہجوم موجود تھا، جب اچانک پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی جانب سے فیصلہ ہوا کہ احتجاج ختم کر دیا جائے۔ یہ خبر بجلی کی طرح کارکنان کے درمیان پھیل گئی اور صورتحال میں ایک نئی ہلچل پیدا ہوگئی۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو واٹس ایپ پر پیغام ملا جس میں انہیں ہدایت کی گئی کہ احتجاج ختم کر دیا گیا ہے، واپس جائیں اور کارکنوں کو بھی پشاور کی طرف لے جائیں۔
یہ اعلان جیسے ہی ہوا، کارکنان کے اندر بغاوت کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ علی امین کی گاڑی کو گھیر لیا گیا، احتجاجی کارکنان نے شدید نعرے بازی شروع کر دی اور کہا، “ہمیں احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکال کر آپ خود کیوں واپس جا رہے ہیں؟” ان کا غصہ عروج پر تھا، تلخ کلامی اتنی بڑھی کہ سکیورٹی اہلکار بھی بے بس دکھائی دینے لگے۔
مظاہرین نے وزیر اعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کر دیا، اور کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ کارکنان کا مطالبہ تھا کہ علی امین گنڈاپور ہر صورت ان کے ساتھ راولپنڈی جائیں گے ورنہ احتجاج اور شدید ہو جائے گا۔ پورا منظر ایک ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا، جس میں ہر کوئی اپنی جگہ پر اٹل دکھائی دے رہا تھا۔ حالات کسی بھی وقت مزید بگڑ سکتے تھے، لیکن قیادت کے فیصلے نے ایک خطرناک تصادم کو روکنے کی کوشش کی، مگر کارکنان کے غم و غصے کو قابو میں لانا مشکل نظر آ رہا تھا