حالیہ دنوں میں امریکہ اور چین کے تعلقات میں کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چینی ہم منصب وانگ یی سے ملاقات کے بعد الزام عائد کیا کہ چین روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو یوکرین میں جاری جنگی کارروائیوں میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یہ الزام اس پس منظر میں لگایا گیا جب یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے باعث عالمی سطح پر تنازعہ اور اقتصادی پابندیاں عائد ہو چکی ہیں۔ چین کی مبینہ حمایت کو بین الاقوامی امن کے لئے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امریکی موقف اور چین پر الزامات
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ چین خفیہ طریقوں سے روس کی مدد کر رہا ہے، جو یوکرین میں روس کی جنگی کارروائیوں کو تقویت دے رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن کا کہنا تھا کہ چین کی یہ کارروائیاں نہ صرف یوکرین بلکہ پورے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ بلنکن نے الزام عائد کیا کہ چین روس کو معاشی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے، جس سے روسی فوج کو جدید ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل حاصل ہو رہے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چین کی یہ حمایت روسی وار مشین کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روس کی حمایت بند کرے اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر روسی جارحیت کو روکنے میں کردار ادا کرے۔
چینی موقف اور امریکہ پر جوابی تنقید
چین نے امریکی الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ان کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے انٹونی بلنکن سے ملاقات کے دوران کہا کہ امریکہ کو چین کو بدنام کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ وانگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین کا موقف غیر جانبدارانہ ہے اور وہ یوکرین بحران کے حل کے لئے سفارتی اور پرامن راستے تلاش کرنے کی حمایت کرتا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ عالمی امن کے لئے سرگرم ہے اور تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وانگ نے یہ بھی واضح کیا کہ چین کسی بھی قسم کی جنگی حمایت فراہم نہیں کر رہا اور نہ ہی اس کا ارادہ ہے کہ وہ کسی بھی جارحانہ کارروائی میں شریک ہو۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی کسی تنازعہ کا حصہ بننا نہیں چاہتا بلکہ عالمی قوانین کے مطابق اپنے معاشی اور تجارتی تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہے۔
عالمی ردعمل اور سفارتی تعلقات پر اثرات
امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کر رہی ہے بلکہ یہ عالمی سفارتی محاذ پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ مغربی ممالک نے بھی چین کی روس کے ساتھ قریبی تعلقات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور بیجنگ پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین میں امن کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔
چین کی جانب سے امریکہ کے الزامات کو مسترد کرنا اور اپنی غیر جانبداری کا دعویٰ عالمی سطح پر ایک اہم موڑ ہے۔ دونوں ممالک کی یہ کشیدگی آنے والے دنوں میں عالمی سیاست اور معیشت کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر سکتی ہے، جہاں ہر ایک اپنے اپنے موقف پر قائم رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان یہ تنازعہ نہ صرف ان کی معیشتوں کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی ایک پیچیدہ صورتحال پیدا کر رہا ہے۔
نتیجہ
امریکہ کی جانب سے چین پر روس کی حمایت کا الزام ایک سفارتی تنازعہ کی شکل اختیار کر چکا ہے جس نے دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان اختلافات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ چین اپنے غیر جانبدارانہ موقف پر زور دے رہا ہے جبکہ امریکہ چین پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ روسی جارحیت کی حمایت ترک کرے۔ اس صورتحال میں عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذاکرات اور پرامن حل کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ یوکرین بحران کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے اور عالمی امن کو یقینی بنایا جا سکے۔